18 نومبر 2025 - 16:12
شام سے اویغور جنگجوؤں کی ممکنہ چین حوالگی پر تضاد: انسانی حقوق اداروں اور ترک‌نژاد مسلمانوں کی گہری تشویش

شام میں نئی حکومت کے قیام کے بعد اویغور جنگجوؤں کی ممکنہ چین حوالگی سے متعلق متضاد رپورٹس نے خطے کی سیکیورٹی اور انسانی حقوق کے حلقوں میں شدید بےچینی پیدا کر دی ہے، جبکہ دمشق کی جانب سے اس حوالے سے فرانس پریس کی خبر کی تردید نے معاملے کو مزید مبہم بنا دیا ہے۔

اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی ابنا کے مطابق، شام میں نئی سیاسی تبدیلیوں کے بعد یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ دمشق سینکڑوں اویغور جنگجوؤں کو چین کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تاہم یہ دعویٰ سرکاری سطح پر مسترد کر دیا گیا ہے جس کے بعد صورتِ حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔

خبر رساں ایجنسی AFP نے شامی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ دمشق تقریباً 400 اویغور جنگجوؤں کو — جو گزشتہ برسوں میں ترکستان اسلامک پارٹی (TIP) اور دیگر گروہوں میں شامل رہے — چین کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی جب شام کے نئے وزیرِ خارجہ اسعد الشیبانی نے بیجنگ کا دورہ کیا۔

ذرائع کے مطابق چین نے ان جنگجوؤں کو شام کی نئی فوج میں شامل کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا، جب کہ بیجنگ پہلے ہی اس بات کی تصدیق کر چکا ہے کہ دمشق نے چین کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے شامی سرزمین کے استعمال کی اجازت نہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔

تاہم یہ تمام دعوے حکومتِ جولانی کی جانب سے واضح طور پر مسترد کر دیے گئے۔
شامی خبررساں ایجنسی سانا نے وزارتِ خارجہ کے ایک ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ:

فرانس پریس کی یہ خبر بے بنیاد ہے۔ دولتِ جولانی قانونی طریقہ کار کے بغیر ایسے جنگجوؤں کے حوالے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی جو برسوں مختلف محاذوں پر سرگرم رہے ہیں۔”

سانا کے مطابق جنگجوؤں کو چین کے حوالے کرنے کا معاملہ سرے سے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں، اور نئی حکومت اس وقت تمام غیر ملکی جنگجوؤں کے مسئلے کا مجموعی جائزہ لے رہی ہے۔

شام میں انسانی حقوق کے مشاہدہ گروپ (SOHR) کا کہنا ہے کہ شام میں اب بھی 3,200 سے 4,000 اویغور جنگجو موجود ہیں جن میں سے کئی گزشتہ برس نئی عسکری تشکیل میں ضم ہو چکے ہیں۔
ادلب — جو کبھی ہیئت تحریر الشام کا مضبوط گڑھ تھا — ان جنگجوؤں کی اصل آبادی گاہ شمار ہوتی ہے۔

ادھر بعض علاقائی رپورٹس کے مطابق ترکی میں اویغور پناہ گزینوں پر بڑھتا دباؤ اور انہیں ممکنہ طور پر چین کے حوالے کیے جانے کے خدشات نے ترک‌نژاد مسلمان برادریوں اور انسانی حقوق کے اداروں میں بےچینی بڑھا دی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اویغور بحران اب سوریہ کی حدود سے نکل کر خطے کے دیگر ممالک تک پھیل چکا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف اور متضاد بیانات نے نہ صرف اویغور جنگجوؤں کے مستقبل کو غیر یقینی بنا دیا ہے، بلکہ یہ معاملہ نئی شامی حکومت کے سامنے کھڑی سب سے پیچیدہ سیکیورٹی و سفارتی آزمائش بن چکا ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha